Be social don't be stupid by Ahmed Hassan Noori
جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ آج کا موضوع سوشل میڈیا اور اس پر دیکھائی جانے والی حقیقت پر مبنی ہے جو کہ حقیقت نہیں ہوتی بلکہ اگر کہوں کے حقیقت کے قریب تر بھی نہیں ہوتی تو غلط نہ ہو گا۔ یہاں دیکھائی دینے والی 99 فیصد زندگی فیک و آرٹیفیشلی تیار کردہ ہے جہاں سب اچھا ہے دیکھاتے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام پر دیکھائے جانے والے اکثر انفلو وینسز(Influencer) کے کپڑے بھی ان کے اپنے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ مختلف جگہوں سے رینٹ پر لیے ہوتے ہیں مگر ہماری عوام اس پر بھی کمپلیس کا شکار نظر آتی ہے۔ چلیں کچھ مزید آگے چلتے ہیں آج کل شوشل میڈیا پر ایک اور ٹرینڈ چل نکلا ہے طلاق ٹرینڈ جہاں اگر آپ کی کسی سے نہیں بنتی تو ایک پوسٹ لگائیں کہ میری فلاں بن فلاں سے نہیں بنی اور ہم دونوں باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے الگ ہو رہے ہیں میری اپنے مداحوں سے درخواست ہے کہ وہ ہماری نجی زندگی کو نجی ہی رہنے دیں اسے مہربانی کر کہ باہر نہ گھسیٹیں، یہ بھی ایک ٹرینڈ ہے ہر دوسرے تیسرے دن سوشل میڈیا پر کسی مشہور و معروف انفلوینسر(Influencer) یاں کسی اسٹار و سیاست دان کی خبریں گردش کرتی پائی جاتی ہیں جن میں اکثر طلاق کی ہوتی ہیں اور پھر اوپر سے یہ بھی کہا جا رہا ہوتا ہے کہ ہماری نجی زندگی کو نجی ہی رہنے دیا جائے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی لوگ نہیں جو کہ اپنے نہایت ہی پرسنل لمحات کو جو کہ صرف و صرف میاں بیوی یاں فیلمی کے تھے انھیں پبلک کرتے آئے ہیں، تو پھر ایسا کیوں کہتے ہیں کہ ہماری نجی زندگی کو نجی رہنے دیا جائے جناب نجی تو آپ نے خود نہیں رہنے دیا, سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اپنی زندگی کو پبلک پراپرٹی بنایا ہے تو پھر عوام کیسے اور کیوں کر رہنے دے گی، کسی کی کوئی خبر لیک ہونے کی دیر ہوتی نہیں اور لمحوں میں اس پر لاکھوں میمز و ٹویٹس وغیرہ ہو چکی ہوتی ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر عام ہو گیا ہے کہ تقریبًا ہر شخص ہی یہاں شوشل بننے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے مگر وہ شاید نہیں جانتا ہے کہ سوشل بننے کے چکر میں وہ بیوقوف بنتے اپنا وقت و صحت دونوں برباد کر رہا ہے اس سوشل میڈیا کا اس میں کچھ نہیں جاتا بلکہ نقصان آپ ہی کا ہوتا ہے، سوشل میڈیا آپ سے آپ کا وقت چھینتا ہے اور بھلا گزرا وقت بھی کبھی واپس آیا ہے، آج کل موبائل فون اس قدر عام ہو چکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں موبائلز تھما دیئے گئے ہیں بچہ روئے تو اُسے موبائل تھما دو جیسے موبائل نے لوری سُلانا ہے، اُسے بھوک لگے تو موبائل تھما دو جیسے اُس سے لقمے نکل کر بچے کے منھ میں جانے ہیں، کہنے کا مقصد یہ ہے کے موبائل بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے بچوں کے ہاتھوں میں تمھا دیئے جاتے ہیں جن پر وہ کچھ بھی دیکھتے ہیں جو کہ اس عمر میں انھیں نہیں دیکھنا چاہیں، موبائل صرف بچوں کی ہی نہیں بلکہ نوجوانوں اور بوڑھوں کی بھی مجبوری بن گیا ہے اس کے بغیر کچھ لمحے بھی گزارا مشکل معلوم ہوتا ہے، جس کا بچے کی ذہنی و جسمانی صحت پر مثبت کے ساتھ ساتھ منفی اثر بھی پڑتا ہے، ٹیکنالوجی کا دور ہے سوشل میڈیا و موبائل سے جان چھڑانا ممکن نہیں اور وقت کا بھی تقاضا یہی ہے کہ ہمیں ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا بلکہ باقی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہے مگر اس ترقی کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگے نہیں جانا بلکہ آنکھیں کھول کر چلنا ہے۔ اس وقت ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ذہنی و جسمانی اذیت و پریشانی سے دوچار ہے انہی وجوہات کے سبب لوگوں میں عدم برداشت، عدم پسندی ، مادیت پسندی، غصہ و معیار پرستی جیسے جزبات سر ابھارتے شدت اختیار کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی کا ایک قصہ ڈسکس کرتے ہیں کہ ایک مشہور و معروف جوڑے کے درمیان علیدگی کا قصہ سوشل میڈیا کے ساتھ پرنٹ میڈیا کا حصہ رہا میں قصدً یہاں کسی کا بھی نام لینے سے اجتناب برت رہا ہوں مگر کیا یہ وہی لوگ نہیں تھے جو کہ اپنی نزدیکیوں اور انتہائی ذاتی زندگی کی نمائش کرتے کئی لوگوں کو کمپلیکس کا شکار کرتے آئے ہیں پھر اُس کے بعد پوسٹیں لگائی جاتی ہیں کہ بہت کوشش کے باجود بھی تعلق نہیں بچا سکے اسی لیے علیدگی اختیار کی گئی ہے، ہاں یہ ان کا ذاتی فیل ہے جو مرضی کریں اور اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہے اگر آپ کسی کے ساتھ نہیں رہ سکتے تو رضامندی کے ساتھ علیدگی اختیار کر لی جائے مگر اکثر لوگ ان مشہور شخصیات سمیت یہ بھول جاتے ہیں کہ ہماری ایک ذاتی زندگی بھی ہے اور اس ذاتی زندگی میں کچھ نہایت ہی ذاتی لوگ بھی ہیں جن کا بل واسطہ یاں بلا واسطہ ہم سے تعلق ہے، لوگوں کی اکثریت اپنے تعلقات کو وقت نہیں دیتی اور دونوں فریقین کے پاس بہانے ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیشہ درست ہی پائے جاتے ہے کیوں کہ اپنی کہانی میں ہر شخص ہی مظلوم ہوتا ہے، والدین کی مثال سے بات کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی اکثریت اولاد کو وقت نہیں دیتی اور دونوں ہی مختلف بہانے گھڑتے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش میں سر توڑ کوشاں نظر آتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ سب ذمہداری میری ہی ہے کیا؟ میں باہر سے کمانے جاؤں یاں یہاں گھر میں بیٹھ کر بچوں کا خیال رکھوں کام دھندا چھوڑ کر بی بی سٹنگ شروع کر دوں، میں کوئی مشین ہوں یاں یہ بچہ میں جہیز میں لے کر آئی تھی جو کہ ہروقت میں کوھلو بیل کی طرح اس کی خدمت میں جتی رہوں، اگر کبھی کہا جائے کہ بچہ تو ماں کی ذمہداری ہوتا ہے ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے، تب بھی خواتین یہ کہتے ہوئے دامن بچاتی نظر آتی ہیں کہ ہمیں تو ہماری اولاد کے لیے وقت ہی نہیں دیا گیا سارا سارا دن اور ساری ساری رات ہم سے خوب جی بھر کر ظالم ساس نے مشقتیں کروائی ہے، مگر ساس بھی تو ایک عورت ہی ہوتی ہے تو پھر وہ ایکد عورت ہو کر دوسری کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتی ہے؟ بلکہ اُسے تو چاہیے کہ جو اس کے ساتھ ہوا وہ کسی دوسرے کی بیٹی کے ساتھ نہ ہو اس بات کو یقینی بنائے مگر یہاں تو معاملا ہی الٹ ہے وہ بدلے و انتقام لیتی پائی جاتی ہے خیر اس پر بھی کبھی تفصیل سے لب کشائی کریں گے مگر اب بات صرف اتنی سی ہے کہ دو فریقین کی جانب سے کی جانے والی غلطیاں تادم آخر خساروں کا موجب بنتی ہیں سوشل میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا پر دیکھائی جانے والی زندگی سب جھوٹ و فرضی ہوتی ہے۔ مگر آپ کی زندگی اصلی ہے اور یہ ایک ہی دفعہ ملی ہے اسے برباد کرتے بیوقوف نہ بنیں بلکہ زندگی کو زندگی کی طرح جیئن اپنے وقت کو اس قدر بھی برباد نہ کریں کے بعد میں آپ کے پاس خالی ہاتھ ملنے تک کا بھی وقت نہ رہے۔ اپنے تعلقات کو بھی وقت دیں ایک دفعہ اگر جو تعلق ٹوٹ جائے تو پھر جڑنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک ٹوٹے ہوئے شیشے کو جوڑ پہلے کی سی شکل دینا سوشل بنیں بالکل بنیں مگر سوشل میڈیا کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنیں۔