Are we human by Ahmed Hassan Noori

Auther
0

 

 Are we human by Ahmed Hassan Noori


Are we human by Ahmed Hassan Noori


پاکستان ایک ایسا ملک جو ابھی مختلف مسائل سے دوچار ہے چایے وہ سیاست و تعلیم ہو یاں صحت ہو مگر میرا موضوع ان میں سے فلحال کوئی نہیں میں آج پاکستانیوں کی انسانیت پر بات کرنے آیا ہوں جو کہ دن با دن کھٹی جا رہی ہے۔ ہم پاکستانی واحد قوم ہیں جو کہ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے آئے ہیں اب تو ہم اتنا تقسیم ہو چکے ہیں کہ اعداد میں جواب بھی نہیں آتا۔ پاکستان میں پانچ صوبے اور ہم ان صوبوں میں تقسیم شدہ ہیں اور پھر ان صوبوں میں ہم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس کے بعد ہماری سیاسی جماعتیں آتی ہیں جن کا ہمیں آج تک کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر ہم ان میں بھی بٹے ہوئے ہیں کوئی یوتھیا بن چکا ہے تو کوئی پٹواری۔۔۔۔۔۔۔۔   مگر اس سب کے باجود بھی کیا ہم انسان نہیں رہے ہیں؟
میرا موضوع کوئی سیاست و سیاستدان نہیں کیوں کہ سیاست ایک گندگی ہے اور گندگی سے اسلام پاک رہنے کا درس دیتا ہے۔ خیر میرا موضوع کچھ دن پہلے ہوا احتجاج ہے جو کہ اس سیاسی جماعت کا حق تھا کیوں کہ ان کے لیڈر کے ساتھ جس نے بھی کیا تھا برا کیا تھا اب ان کی جانب سے رد عمل آنا متوقع تھا جو کہ آیا بھی، منڈی بہاوالدین کمیٹی چوک مشہور سیاسی جماعت کی جانب سے بلاک کیا گیا تھا یوں کچھ ہی دیر میں وہاں گاڑیوں کا ایک تویل رچ لگ چکا تھا سڑک موٹر سائیکل و دیگر سوارویوں سے کچھا کچھ بری پڑی تھی پیدل چلنے کے لیے بھی رستہ میسر نہ تھا۔ ایسے میں اس سڑک سے ایک ایمبولینس کا گزر ہوا جو کہ کچھ دور واقعہ بستی سے شاید کسی کو لے جا رہی تھی۔آپ لوگ شاید یقین نہیں کریں گے سب گاڑی والوں نے اپنی اپنی گاڑیاں پیچھے کرتے اس ایمبولینس کو رستہ دیا تھا, جسے دیکھ کر میری آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئیں, وہ ایمرجنسی گاڑی بھی ہوا کی رفتار سے گزر بھی گئی تھی۔۔۔۔۔
اچھا اچھا کچھ زیادہ ہی جھوٹ بول چکا ہوں میں مگر کیا کروں مجھے عادت ہو چکی ہے سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کی, جیسا کے ہمارے اداروں میں دی جاتی ہے۔
اس ایمبولینس کے آگے ایک گاڑی کھڑی تھی جو کہ اُسے رستہ ہی نہیں دے رہی تھی کیوں کہ اس کے پیچھے بھی ایک گاڑی تھی اور گاڑی کے آگے اک موٹر سائیکل تھی، اور موٹر سائیکل کے آگے بھی ایک گاڑی تھی جو کہ ترچھی کھڑی تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ گاڑی کا ڈرئیور کہیں غائب تھا۔ بات دراصل اتنی ہے کہ ہمارا اخلاقی و دینی فرض تھا کہ ہم لوگ اپنی اپنی گاڑیاں و سواریاں آگے پیچھے کرتے رستہ بناتے کیوں کہ اس ایمبولینس میں شاید ہمارا کوئی اپنا بھی ہو سکتا تھا اور شاید ہم خود بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہوا اس کے بالکل برعکس سب لوگوں کو خود نکلنے کی جلدی تھی مجال تھی جو اُس گاڑی کو رستہ دے۔۔۔۔۔۔میں مزید کچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ سمجھایا و بحث اُس سے کی جاتی ہے جو سمجھنے کو تیار ہو مجھے سے پہلے ہی بہت  سے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں اور عوام کو شعور دلانے کی کوشش کر چکے ہیں، ان کے کہنے سے نہیں ہوئے تو میرے کہنے سے کیا خاک ہوں گے بات یہاں ختم کیے دیتا ہوں کہ اعمال پلٹ کر واپس ضرور آتے ہیں۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کی ضرب المثل اسیے ہی تو نہیں بنی تھی۔
اسلام ہمیشہ انسانیت کا درس دیتا ہے مگر جانے کیوں مسلمانوں میں انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہاں حساب فرقوں و سیاست پر نہیں ہو گا بلکہ آپ کے اعمال پر ہو گا۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !